صنعاء8؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)یمن میں باغیوں کے زیرِتسلط علاقوں میں سعودی عرب کے زیر قیادت فوجی اتحاد نے آج سلسلہ وار فضائی حملے کیے ہیں۔گزشتہ روز ہی اقوام متحدہ کے ذریعے ہونے والے یمن امن مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے تھے۔کم از کم آٹھ فضائی حملے حوثی باغیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے شمالی صوبے صعدہ میں کیے گئے تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ہلاکتوں کی اطلاعات نہیں ہیں۔ اتحادی طیاروں نے سعودی عرب کی سرحد کے قریب شمال مغربی یمنی صوبے حاجہ میں بھی حوثی باغیوں اور ان کے اتحادیوں کی تنصیبات پر بمباری کی ہے۔ حاجہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اتحادی طیاروں کی بمباری نے باغیوں کیفوجی ساز وسامان کو تباہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب حوثی نواز نشریاتی ادارے المسیراح نے خبر دی ہے کہ نجران اور جیزان کے سعودی سرحدی قصبوں میں آج ہونے والے باغیوں کے حملوں میں سعودی اہلکاروں کی نامعلوم تعداد ہلاک ہوئی ہے۔گزشتہ روز یمن کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب اسماعیل اولد شیخ احمد نے رواں سال کویت میں شروع ہونے والے یمن امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ شیخ احمد نے اعلان کیا تھا کہ امن مذاکرات کا دور ایک ماہ کے عرصے میں دوبارہ شروع کیا جائے گا تاہم جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ دوسری جانب یمنی حکومت کی طرف سے مذاکرات کاروں نے کہا ہے کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے مذاکرات میں تعطل کے لیے شیعہ باغیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ یمن تنازعے میں مارچ سن 2015 سے شدت آئی تھی جب ایران کے اتحادی باغیوں نے عدن کے جنوبی شہر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی تھی۔جس کے بعد ہی سعودی عرب اور اس کے سنی اتحادیوں نے یمن میں اس گروپ کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کر دیا تھا۔ سعودی عرب کو خطرہ ہے کہ حوثی باغی اس کے روایتی حریف شیعہ اکثریتی ملک ایران کو جزیرہ نما عرب میں اپنے قدم جمانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
ایردوآن رواں ہفتے روسی ہم منصب پوٹن سے ملیں گے
انقرہ8؍اگست(ایس او نیوز ؍آئی این ایس انڈیا)ترک صدر رجب طیب ایردوآن رواں ہفتے روسی شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔ ترک صدارتی دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ ثابت ہو گی۔ گزشتہ برس کے آخر میں ترکی نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک روسی جنگی طیارہ مار گرایا تھا، جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ اسی تناظر میں روس نے ترکی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جب کہ روسی سیاح بھی اب ترکی کا رخ نہیں کر رہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق رواں برس کے پہلے نصف عرصے میں ترکی میں روسی سیاحوں کی تعداد میں گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 87فیصد کمی دیکھی گئی۔ ایردوآن کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس دورے کو تاریخی دورہ قرار دیا گیا ہے۔